ایرانی اقدامات اور تجزیہ کاری

ایم اے راجپوت


18 جنوری 2024 بروز جمعرات پاکستان نے ایران کے خلاف جوابی کاروائی کی۔یہ کاروائی کرنی چاہئے تھی یا نہیں ؟پاکستان نے خود کی یا کسی نے کرائی؟فی الحال ان سوالات کے جوابات سے بحث کرنا مقصود نہیں۔اس تحریر کا اصل موضوع اس کاروائی کے بعد بعض پاکستانی تجزیہ نگاروں اور صحافی حضرات کے وہ تجزیہ جات ہیں جن کو سن کر ہر مسلم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ کیا ایسی باتیں کوئی مسلم بھی کر سکتا ہے؟
مثلا بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے غاصب و جعلی اسرائیل کے مقابل مظلوم فلسطینیوں ،قبلہ اول بیت المقدس اور طون الاقصی اور غزہ کی حمایت کو ایران کا عیب شمار کیا اور مشرق وسطی میں ایران کی جانب سے اسے شرارت کہا جبکہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران ملت فلسطین کی پشت پر نہ ہوتا تو آج باقی ماندہ فلسطین بھی غاصب اسرائیل کے قبضے میں جا چکا ہوتا۔
اسی طرح بعض تجزیہ نگاروں نے ایران کی جانب سے داعش اور اس کے سرپرستوں کے مقابل عراق اور شام کی غیور، مسلم ومومن عوام کی حمایت پر منفی ریمارکس دئیے جبکہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اگر ایران ان دوملکوں کی مدد کو نہ پہنچتا تو داعش کے توسط سے دونوں ملکوں کے شیعہ سنی مسلمان ذبح ہو چکے ہوتے اور عالمی دہشت گرد امریکہ دونوں ملکوں کی سرزمین کو ٹکڑے ٹکڑے کر چکا ہوتا۔دشمن اسلام امریکہ اور داعش کو ناکام بنانے والا ایران ہی تھا ۔
پھر بعض تجزیہ نگار ایران کی جانب سے حزب اللہ لبنان ،انصار اللہ یمن اور حماس جیسی غیور تنظیموں کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے اور اسے ایران کا ایک ویک پوائنٹ شمار کرتے ہوئے سنے گئے۔گویا ان تجزیہ نگاروں کے نزدیک عالمی دہشت گرد امریکہ ،غاصب اور جعلی اسرائیل ،داعش اور طالبان جیسے دھشت گرد گروہ حق پر ہیں اور حزب اللہ ،انصاراللہ ،حماس اور ان سب کا روحانی سربراہ ایران باطل پر ہے؟!ان تجزیہ نگاروں کی نگاہ میں بے حسی ،بے غیرتی اور مفاد پرستی کے شکار اکثر مسلمان ممالک درست اور اسلامی غیرت ،حمیت؛شجاعت اور ایثار کا مظاہرہ کرنے والے ایران؛عراق،شام،لبنان اور یمن غلط ہیں؟!
حتی بعض تجزیہ نگار اس پس منظر میں ایران کو تنہائی کا طعنہ بھی دیتے ہوئے پائے گئے۔
ہمارے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ تجزیہ نگار واقعا اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہیں؟دنیا کے حالات سے مطلع نہیں؟یا سب کچھ جانتے ہوئے عارضی دنیوی مفادات کی خاطر حقائق چھپا رہے تھے۔
لیکن ہم اپنے وطن عزیز اور ملت غیور پاکستان کے اسلامی چہرے کی حفاظت کی خاطر ان تجزیہ نگاروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسلامی سرزمین کی حفاظت مسلمانوں کا فریضہ نہیں؟کیا قبلہ اول کی حفاظت مسلمانوں کا وظیفہ نہیں؟کیا مظلوم کی ندا پہ لبیک کہنے کا حکم ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ نے اپنی تمام امت کو نہیں دیا تھا؟کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ نے تمام مسلم امہ کو ایک جسم کی مانند قرار نہیں دیا تھا؟کیا قرآن کریم یہودو نصاری کے ساتھ دوستی سے مسلمانوں کو منع نہیں کرتا؟
محترم صحافی حضرات توجہ فرمائیں ۔یہ سب دینی و انسانی حقائق ہیں اور آپ کے تجزئیے ان حقائق کے خلاف ہیں۔آپ نے ایران کا نہیں انسانیت کو نقصان کر رہے ہیں، آپ کشمیر اور فلسطین کا ہی نہیں سارے عالم اسلام کا نقصان کر رہے ہیں۔جن چیزوں کو آپ نے ایران کا عیب اور کمزوری بنا کر پیش کیا درواقع یہ ایران کا فخر اور نکتہ قوت ہے ۔عیب اور کمزوری تو ان نام نہاد مسلمان ملکوں کی ہے جو ان اسلامی حقائق کا عملی انکار کر کے دشمن کا ساتھ دے رہے یا مفادات کی خاطر غیر جانبدار بنے ہوئے۔
اور جہاں تک ایران کو تنہائی کا طعنہ دینے کی بات ہے تو یہ بالکل وہ الفاظ ہیں جو عالمی دھشت گرد امریکہ اور اس کے پالتو کئی سالوں سے کہ رہے ۔چونکہ وہ سمجھتے ہیں ساری دنیا ہم ہی ہیں ۔جبکہ غزہ کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں نے ثابت کردیا کہ دنیا کی اکثریت اس راستے پر ہے جس پر ایران ہے حتی خود امریکہ کے عوام نے بھی بہت بڑی تعداد میں غزہ کی حمایت میں مظاہرے کئے۔پس کہا جا سکتا ہے کہ جس اسلامی نکتہ نظر سے ایران غزہ ،بیت المقدس ،فلسطین،یمن ،عراق اور شام کی حمایت کر رہا اسے دنیا کی واضح اکثریت قبول کرتی ہے اور یہ درواقع اسلام کی فتح اور عالمی دھشت گرد امریکہ اور اس کے ہم نواوں کی شکست ہے ۔
ہر صحافی اور تجزیہ نگار کا حق ہے کہ وہ ایران کی جانب سے پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کی ممکنه تکنیکی غلطی یا پاکستان کے رد عمل پر یا اس صورت حال کے ممکنہ اثرات پر بات کرےلیکن اس کی آڑ میں فلسطین اور غزہ کی مدد کو غلط کہنا، داعش، اسرائیل، دہشت گردی اور امریکہ کی مخالفت کو غلط کہنا یہ تجزیہ نہیں بلکہ امریکی ایجنڈے پر کام کرنا ہے۔ آپ لوگوں کو یہ سبق پڑھا رہے ہیں کہ دین نام کی تو کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔مسلم امہ کا کوئی وجود ہے ہی نہیں۔سب کچھ مادی فائدہ ہے ۔ڈالر ہمارا خدا ہے اور ہمارے مائی باپ اور سب کچھ امریکہ ویورپ ہیں۔


افکار و نظریات: news, twitter, islamic, face